Thursday, 23 April 2020
تصوف کیا ہے
تصوف کیا ہے
سچا اسلامی تصوف کیا ہے اور اصلی سالک وصوفی کیا ہوتا ہے؟۔
صحیح تصوف کے جاننے والے جیسے جیسے اٹھتے جاتے ہیں ویسے ویسے تصوف کے بارے میں بے خبری اور غلط فہمی بڑھتی جاتی ہے۔عوام ”رہبانیت“۔ گوشہ نشینی اور ترک دنیا میں درویشی وعرفان کو منحصر سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ تعلقات دنیا کے ساتھ یادِخدا قاٸم رہے اور اس سے غفلت نہ ہو۔صحابہ کرام کی عموماً یہی حالت تھی تھیھم تجاّرة ولابیع عن ذکر اللہ۔ وہ دن کوحمکرانی و فرماں رواٸ کرتے تھے۔اور رات کو ذکرِ الٰہی و تذلل و ابتہال میں گزارتے تھے۔
در کفے جامِ شریعت در کفے سندان عشق
خواص۔ یعنی پڑھے لکھے لوگ بھی جو دنیا کے ہر فلسفے پر سر دھنتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ تصوف بھی ایک فلسفہ ہے اور عام فلسفہ اور تصوف کے درمیان فرق علم اور عمل کا ہے۔ ”فلسفی جانتا ہے اور صوفی دیکھتا ہے“۔ فلسفی دلاٸل سے ثابت کرتا ہے کہ سچ اچھی چیز ہے گرچہ خود بے تکلف جھوٹ بول جاتا ہے۔مگر صوفی کے زبان سے بلاقصد بھی سچ ہی نکلتا ہے۔اسی طرح صوفی اور زاہد کے درمیان بھی بڑا فرق ہے۔اور یہاں بھی یہ فرق زاویہ نگاہ کا ہے۔عبادت دونوں ہی کرتے ہیں مگر ایک ڈر سے کرتا ہے یا اجر پانے کے لٸے کرتا ہےدوسرا اس لٸے کرتا ہے ہے کہ عشق ومحبت کا تقاضا یہی ہے اسی لٸے اس راہ میں اگر اسے تکلیفیں بھی پہنچتی ہیں تو اس کو ان تکلیفوں میں بھی ایک راحت ملتی ہے۔مزہ آتا ہے۔ صوفیہ اسی مقام کو مقامِ رضا کہتے ہیں۔ ” تصوف کی اصل بنیاد عشق ہے۔ یہی عشق جب تلاشِ شاہد حقیقی میں کاٸنات پیماٸ کرنے لگتا ہے تو صوفی کو فلسفی کے دوش بدوش کھڑا کر دیتا ہے۔ فلسفی اپنے فلسفے کی عقل سے جانتا ہے کہ خدا ایک ہے اور صوفی اپنے تصوف کی آنکھ سے دیکھتا ہے کہ خدا ایک ہے۔مگر صوفی کہتا ہے کہ ” صرف جاننا ہی کافی نہیں اسے دیکھنا بھی ضروری“
مغرور مشو کہ توحید خداٸے۔۔
واحد دیدن بود نہ واحد گفتن
چوتھی صدی( ھ)میں جب علم وفضل کا زمانہ تھا۔ شیخ بو علی سینا بڑا فلسفی گزرا ہے اس کے ہم عصر سلطان ابو سعید ابوالخیر بڑے صوفی بزرگ تھے دونوں میں مراسلت رہتی تھی اور خطوط میں بڑے دقیق مساٸل پر بحث ہوتی تھی وہ خطوط آج بھی تاریخ کے خزانے میں محفوظ ہیں اور ”واحد دیدن“ اور”واحد گفتن“ کے زندہ نمونے ہیں۔شیخ بو علی سینا اپنی فلسفیانہ تحقیق ودریافت ان کے سامنے پیش کرتا تھا اور مشکل مساٸل میں ان کی راٸے پوچھا کرتا تھا۔اور وہ اپنی صوفیانہ بصیرت کے جواب اس کو دیا کرتے تھے۔وہ کہتے تھے”او می گوید۔ من می بینم“
تصوف اصل میں وہی ہے جو علمِ دین کے ساتھ ہو۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ حضرت جبریل نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا کہ ”ماالاحسان یا رسول اللہ؟“ احسان کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا ”ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک“ یعنی اللہ کی عبادت یوں کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر یہ نہ ہوسکے تو یوں سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے“ صوفیہ کے یہاں ان ہی دونوں کیفیات کا نام ”مراقبہ“ ہے۔ پہلی کیفیت ”مراقبہٕ استغراق و مشاہدہ“ کی ہے اور دوسری کیفیت ”اللہ حاضری اللہ ناظری“ کا ملاحظہ ہے۔ یہ مراقبات مومن کو احسان کے درجے میں لاتے ہیں اور زمرہٕ محسنین میں داخل کرتے ہیں اور محسنین کے لٸے چونکہ میثیت الٰہی لازمی ہے”ان اللہ مع المحسنین“ پس محسنین کی شان میں سے ہے کہ ”ھو معکم ایمناکنتم“ کے مراقبات میں مستغرق رہیں اور قرب و معیت کی تجلیات سے نور ہی نور ہوجاٸیں۔ شریعت و طریقت و حقیقت ایسے مسلسل اور وابستہ ہیں کہ ان میں جداٸ ہو ہی نہیں سکتی۔ ”شریعت زادِ راہ وسازوسامان کا نام ہے۔ طریقت راستہ چلنا اور منازل طٸے کرنا ہے اور حقیقت منزلِ مقصود پر پہچنا ہے“۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں۔”رسول اللہﷺ کے سوا ہمارے لٸے کوٸ نبی وہادی نہیں ہے جس کی ہم پیروی کریں اور نہ قرآن کے سوا ہمارے لٸے کوٸ کتاب و قانون ہے جس پر ہم عمل کریں۔ان دونوں سے نکلے تو ہلاک ہوٸے۔سلامتی صرف کتاب و سنت میں ہے۔ان کے سوا ہر دوسری راہ ہلاکت کی راہ ہے۔یہ قرآن و سنت ہی ہے جس کے ذریعے بندہ ولایت اور ابدالیت اور غوثیت کے مدارج تک پہنچتا ہے۔مومن کو چاہیۓ کہ پہلے فراٸض ادا کرے جب ان سے فارغ ہو تو سُنن میں مشغول ہو پھر نوافل و فضاٸل کا درجہ ہے۔ اگر کسی نے فراٸض سے فراغت نہیں کی تو سُنن میں مشغول ہونا حماقت ورعونیت ہے فراٸض سے پہلے سُنن و نوافل کی مشغولیت کبھی قبول نہ ہوگی۔
اور سلطان المحقیقین حضرت مخدوم شرف الدینؒ بہاری فرماتے ہیں۔
واجب ہےکہ طریقت کا راستہ شریعت کے موافق چلے جہاں کہیں تُو دیکھے کہ طریقت شریعت کے مطابق نہیں ہے تو اُس طریقت کا کچھ فاٸدہ نہیں ہے اور وہ ملحدوں کا مزہب (طریقہ) ہے کہ (وہ) ایک کے بغیر دوسرے کے قیام کو جاٸز سمجھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جب حقیقت کا کشف ہوا تو شریعت اُٹھ (ساقط ہو) گٸ اس اعتقاد پر لعنت ہو۔ ظاہر (شریعت) بے باطن (بغیر طریقت کے) نفاق ہے اور باطن (طریقت)بے ظاہر (بے شریعت کے) زندقہ ہے۔ شریعت کا ظاہر (جو) باطن (یعنی طریقت) کے بغیر ہو نفس (پرستی) ہے اور باطن (طریقت) بے ظاہر (بغیر شریعت کے) ہوس ہے۔ ظاہر( یعنی شریعت)با باطن ( طریقت) کے ساتھ بندھی ہے۔ جسے حقیقت میں کوٸی جدا نہیں کر سکتا لااِلہٰ الااللہ حقیقت ہےاور محمدرسول اللہ شریعت ہےاگر کوٸ ایمان کی(اس)حقیقت کو ایک دوسرے سے جدا کرنا چاہے گا تو (وہ ایسا) نہیں کر سکتا اور اُس کی( یہ) خواہش باطن ٹھہرے گی۔
تحریر:حضرت مولاناسید شاہ غلام حسنینؒ چشتی پھلواروی۔
حضرت جس تصوف کے حامل رہے اس کا نام "احسان" ہے اور یہی تصوف اصلی اور اسلامی ہے۔ "احسان" کا ماحصل نیکوکاری اور حسنِ عمل ہے کہ دین ودنیا کا جو کام بھی ہو اس کو حسن و کمال اور خوبی و اخلاص کے ساتھ ہمہ تن ڈوب کر انجام دیا جائے، اس تصوف میں دین ودنیا دوالگ چیزیں نہیں ہیں اس تصوف کی روح محبت ہے اصلاً اللہ سے، پھر خلق اللہ سے۔
ماخوذ از ریاض۔کراچی.مارچ ١٩٥٤۔ تلخیص ریحان چشتی
Subscribe to:
Posts (Atom)